اب تو سفر عمر کا بھی سپنا دکھائی دے
کھلتا ہوا بھی چہرہ جو مرجھا دکھائی دے
بچپن کی کشتیاں بھی ہیں اشکوں میں بہہ گئی
اب چاند میں بھی کوئی نہ چرخہ دکھائی دے
بارش کا دیکھا جو کہیں پہ لفظ رند نے
اس کو تو لفظ بھی ہے یہ الٹا دکھائی دے
بوڑھے تلاش ہیں کریں ایسے جوان کی
جس میں ادب کا ہو کوئی مادہ دکھائی دے
کل شب تھی ناچتی کسی مفلس کی آبرو
لوگوں کی آنکھ کو تھا جو مجرا دکھائی دے
کیا کیا بتائیں ہم تجھے یہ عشق کے گدا
جاتے ہیں سورج اب جہاں چڑھتا دکھائی دے
تم کو بھی کیا نہیں ملے دو پل یقین کے
کاجل تری بھی آنکھ کا پھیلا دکھائی دے
اشفاق ختم کر تو بھی یہ اپنی گفتگو
ہر آنکھ اشکبار میں تنکا دکھائی دے
اشفاق انصاری
No comments:
Post a Comment