Tuesday, 23 February 2021

اب تو سفر عمر کا بھی سپنا دکھائی دے

 اب تو سفر عمر کا بھی سپنا دکھائی دے

کھلتا ہوا بھی چہرہ جو مرجھا دکھائی دے

بچپن کی کشتیاں بھی ہیں اشکوں میں بہہ گئی

اب چاند میں بھی کوئی نہ چرخہ دکھائی دے

بارش کا دیکھا جو کہیں پہ لفظ رند نے

اس کو تو لفظ بھی ہے یہ الٹا دکھائی دے

بوڑھے تلاش ہیں کریں ایسے جوان کی 

جس میں ادب کا ہو کوئی مادہ دکھائی دے 

کل شب تھی ناچتی کسی مفلس کی آبرو 

لوگوں کی آنکھ کو تھا جو مجرا دکھائی دے 

کیا کیا بتائیں ہم تجھے یہ عشق کے گدا 

جاتے ہیں سورج اب جہاں چڑھتا دکھائی دے

تم کو بھی کیا نہیں ملے دو پل یقین کے 

کاجل تری بھی آنکھ کا پھیلا دکھائی دے 

اشفاق ختم کر تو بھی یہ اپنی گفتگو 

ہر آنکھ اشکبار میں تنکا دکھائی دے


اشفاق انصاری

No comments:

Post a Comment