ہے وجہِ سکون دلِ آشفتہ نوا بھی
وہ آنکھ کہ ہے فتنۂ صد ہوشربا بھی
ہے کارِ جنوں اہل جنوں کے لیے آساں
یہ کام کبھی اہلِ فراست سے ہُوا بھی
تسکین دل و جاں ہے اگر وہ رخِ زیبا
اس قامتِ زیبا میں ہے اک حشر چھپا بھی
جو سامنے آئے تو مِری سمت نہ دیکھے
دیتا ہے شبِ ہجر وہی مجھ کو صدا بھی
اُترے جو وہ سینے میں تو الہام کی صورت
ٹھہرے تو لرزنے لگے شبنم کی ردا بھی
اُٹھے تو قیامت بھی قدم چُوم کے گزرے
القصہ وہ انداز ہے آفت بھی، بلا بھی
حافظ مِرے سینے میں فروزاں ہے ابھی تک
وہ درد، سکھاتا ہے جو جینے کی ادا بھی
حافظ لدھیانوی
No comments:
Post a Comment