Wednesday, 23 June 2021

زندگی کیا ہے اک تماشا ہے

 جواز


زندگی کتنی ہے عجیب و غریب

زندگی کیا ہے اک تماشا ہے

زندگی رہگزار بے منزل

بے طلب بے حصول جینا ہے

ہیں فقط چند لوگ ہی مختار

اور باقی جو ہیں وہ بندے ہیں

کیا پھرے ہیں گلے میں لٹکائے

رنج و مظلومیت کے پھندے ہیں

پھر بھی جیتے ہیں کیا خبر کیا ہو

کچھ دوامی نہیں نظام کہن

گرچہ ہے یہ مقام درد و محن

کیا خبر منزل دگر کیا ہو

آج ہر چند ہیں بہ حال زبوں

کون جانے کہ کل مگر کیا ہو


داؤد غازی

No comments:

Post a Comment