ویسے کہنے کو تو بےکار نہیں کوئی بھی
اس بھرے شہر میں فنکار نہیں کوئی بھی
ہم نے ہر حال محبت کا بھرم رکھنا ہے
کیوں کہیں ہم کہ وفا دار نہیں کوئی بھی
بے گناہی پہ بھلے روئے زمانہ، لیکن
سرِ مقتل تو طرفدار نہیں کوئی بھی
ہم نے دیکھا تو گناہ سب کا ہی نکلا لیکن
ہم نے پوچھا تو گنہگار نہیں کوئی بھی
شعر سننے کی تو خواہش ہے بڑی لوگوں کی
درد کا اصل خریدار نہیں کوئی بھی
خود کو پایا ہے کھڑا اپنے ہی آگے اکثر
اپنے رستے کی تو دیوار نہیں کوئی بھی
ان کے اپنے ہیں مسائل میرے دکھ اپنے ہیں
دونوں مجبور ہیں غدار نہیں کوئی بھی
ہم نے ہر حال رقیبوں کو ہی مجرم جانا
سچ میں نجمی پسِ انکار نہیں کوئی بھی
نجم الحسن نجمی
No comments:
Post a Comment