Friday 25 June 2021

ویسے کہنے کو تو بیکار نہیں کوئی بھی

 ویسے کہنے کو تو بےکار نہیں کوئی بھی

اس بھرے شہر میں فنکار نہیں کوئی بھی

ہم نے ہر حال محبت کا بھرم رکھنا ہے

کیوں کہیں ہم کہ وفا دار نہیں کوئی بھی

بے گناہی پہ بھلے روئے زمانہ، لیکن

سرِ مقتل تو طرفدار نہیں کوئی بھی

ہم نے دیکھا تو گناہ سب کا ہی نکلا لیکن

ہم نے پوچھا تو گنہگار نہیں کوئی بھی

شعر سننے کی تو خواہش ہے بڑی لوگوں کی

درد کا اصل خریدار نہیں کوئی بھی

خود کو پایا ہے کھڑا اپنے ہی آگے اکثر

اپنے رستے کی تو دیوار نہیں کوئی بھی

ان کے اپنے ہیں مسائل میرے دکھ اپنے ہیں

دونوں مجبور ہیں غدار نہیں کوئی بھی

ہم نے ہر حال رقیبوں کو ہی مجرم جانا

سچ میں نجمی پسِ انکار نہیں کوئی بھی


نجم الحسن نجمی

No comments:

Post a Comment