تِری نگاہِ محبت سے بھی فرار نہیں
جگر کا درد بھی موسم کو سازگار نہیں
کسی سے تیرا تقابل ہو یہ کہاں ممکن
تُو منفرد ہے، کسی میں تِرا شمار نہیں
مجھے یقیں ہے کہ اک دن میں سرخرو ہوں گی
یہ در ہے میری محبت کا، کوئی دار نہیں
ازل سے چاہا ہے تم کو اے حرزِ جان مِری
ذرا سی دید سے آتا تمہیں قرار نہیں
حصارِ ذات میں اتنا جلی ہوں فرقت میں
نگاہِ شوق میں پہلا سا اب خمار نہیں
مِرے نصیب کے صفحے سے مِٹ گیا ہے اگر
کسی بھی قول پہ اب تیرے اعتبار نہیں
وہ جب سے چھوڑ گیا ہے دیارِ دل کو مِرے
خزاں رسیدہ چمن ہے کہیں بہار نہیں
تِرے فراق میں دل جو اُداس ہے عشبہ
کہ زرد رُت میں کہیں بھی یہاں نِکھار نہیں
عشبہ تعبیر
No comments:
Post a Comment