Sunday, 1 August 2021

دل کو ترے خیال سے بہلا رہا ہوں میں

دل کو تِرے خیال سے بہلا رہا ہوں میں

یوں شام غم کو صبح کئے جا رہا ہوں میں

واقف ہوں میری راہ کی منزل نہیں کوئی

دیوانہ وار پھر بھی بڑھے جا رہا ہوں میں

میں کہہ رہا ٹھہرئیے کہ ایسا بھی کیا ستم

وہ کہہ رہے ہیں چھوڑئیے اب جا رہا ہوں میں

سچ ہے کسی صنم کی عبادت گناہ ہے

پھر بھی حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں

جو کچھ دیا ہے تیرے مقدس خیال نے

اس لذتِ دوام کو لوٹا رہا ہوں میں

کل تک مخالفین کے چرچے تھے ہر طرف

ہر بزمِ اہلِ ذوق پہ اب چھا رہا ہوں میں


مجید میمن

No comments:

Post a Comment