Saturday 25 September 2021

کون کہتا ہے کہ ظلمت میں ضیا تقسیم کر

 کون کہتا ہے کہ ظُلمت میں ضیا تقسیم کر

عرض یہ ہے؛ تیرگی کو تیرگی تسلیم کر

لاشۂ خورشید پر نوحہ گری کس کام کی

شب کے ہاتھوں جو نہ ہارے وہ سحر تجسیم کر

اپنے حصے کا اُجالا بانٹتا ہے کو بہ کو

کرمکِ شب تاب کی مہتاب سی تکریم کر

شہد بن کر پھر سماعت میں گُھلے گی گفتگو

اپنے لہجے کو غسیلِ کوثر و تسنیم کر

جڑ بنا شاخوں کے ہاتھوں میں ثمر ممکن نہیں

فن کدے میں بیٹھ پہلے قاف و لام و میم کر

جانتا ہوں تُو اسے یکسر بدل سکتا نہیں

پھر بھی آئینِ جفا میں کچھ نہ کچھ ترمیم کر


نواز کمال

No comments:

Post a Comment