جہاں اونچی عمارت ہے وہیں مٹی کا بھی گھر ہے
یہ قبرستان کو دیکھو ذرا کتنا برابر ہے
سمندر کی خموشی بھی تو اک دن ٹوٹ جاتی ہے
مگر کیسے بھلا ٹوٹے جو تیرے ان لبوں پر ہے
بہت تڑپا رہے ہو باپ کو رستے میں تم، لیکن
اسی رستے میں ہے بیٹا عجب کیسا یہ چکر ہے
حقیقت زندگی کی کھل گئی مجھ پر کہ دنیا میں
زمیں پر سنگ ہے ہیرا، مگر مٹی کے اندر ہے
یہ کیسا زخم ہے اب تک ہرا ہے، کیوں نہیں بھرتا
یہاں مرہم نہیں ہے، وقت کے ہاتھوں میں خنجر ہے
بہت پردے ہیں اس کمبخت کے کردار پر فائز
کہ چاندی کی کوئی پنی کسی پتھر کے اوپر ہے
فیروز احمد فائز
No comments:
Post a Comment