Saturday 25 September 2021

جہاں اونچی عمارت ہے وہیں مٹی کا بھی گھر ہے

 جہاں اونچی عمارت ہے وہیں مٹی کا بھی گھر ہے

یہ قبرستان کو دیکھو ذرا کتنا برابر ہے

سمندر کی خموشی بھی تو اک دن ٹوٹ جاتی ہے

مگر کیسے بھلا ٹوٹے جو تیرے ان لبوں پر ہے

بہت تڑپا رہے ہو باپ کو رستے میں تم، لیکن

اسی رستے میں ہے بیٹا عجب کیسا یہ چکر ہے

حقیقت زندگی کی کھل گئی مجھ پر کہ دنیا میں

زمیں پر سنگ ہے ہیرا، مگر مٹی کے اندر ہے

یہ کیسا زخم ہے اب تک ہرا ہے، کیوں نہیں بھرتا

یہاں مرہم نہیں ہے، وقت کے ہاتھوں میں خنجر ہے

بہت پردے ہیں اس کمبخت کے کردار پر فائز

کہ چاندی کی کوئی پنی کسی پتھر کے اوپر ہے


فیروز احمد فائز

No comments:

Post a Comment