دن گزر جائیں گے
عمر ڈھل جائے گی
وقت کٹ جائے گا
یہ محبت کی زرخیر رُت بھی
کسی روز اُجڑی خزاں میں بدل جائے گی
وقت بوسیدگی کے رسن سے
سبھی موسموں کو اداسی کے بنجر میں باندھ آئے گا
روشنی کی رمق بھی تو معدوم ہو جائے گی
سارے جذبات و حِدت بھرے لمس بھی
رائیگانی کی مٹی میں مل جائیں گے
ہونٹ کی سُرخیاں ماند پڑ جائیں گی
اور جوانی کا غازہ اُتر جائے گا
اپنے ہاتھوں پہ، گالوں پہ گزرے ہوئے سالوں کی
سلوٹیں بھی نمایاں نظر آئیں گی
خواہشوں کے گھروندے بھی آخر کہیں
ریزہ ریزہ بکھر جائیں گے
آنکھ میں تیرگی کا تنا سب بڑھے گا
تو امید کی روشنی میں سنورتے ہوئے
خواب مر جائیں گے
یہ محبت کے پیمان، تسکینِ دل، قُربتوں کا سحر
بھسم ہو جائے گا
اس تغیر سے کچھ ماورائی نہیں ہے
مگر میرے کمرے کی بوسیدہ صندوق میں
طاقِ نسیاں کی زینت بنے
تحھ کو لکھے ہوئے خط مہکتے رہیں گے سدا
بشریٰ شاہ
بشریٰ شہزادی
No comments:
Post a Comment