مِرا شعور ہوس، میرا لاشعور ہوس
وصالِ یار ہوس، وصل کا سرور ہوس
مِرا مجاز ہوس، میرا لا مجاز ہوس
یہ جلوہ ہائے نما جلوہ تا نہ طور ہوس
یہ اور بات کہ ہو روح گھومتی پھرتی
وگرنہ جسم جہاں، واں پہ تو ضرور ہوس
ہیں آپ سامنے اور پھر بھی آپ کی ہی طلب
اسی کو کہتے ہیں لالچ، یہی حضور ہوس
آ تجھ کو لے کے چلوں آسماں کے اس جانب
جہاں نظر بھی نہ آتی ہو دور دور ہوس
میں اک زمانے سے اپنی ہوس میں ڈوبا ہوا
مِرا نزول ہوس، اور مِرا ظہور ہوس
میں مانگ لیتا ہوں اپنی عبادتوں کا ثمر
کبھی تو خواہشِ جنت، کبھی تو حور ہوس
مجھے سزا میں کوئی جسم سونپیۓ صاحب
کہ مجھ سے آج ہوا ہے یہ اِک قصور ہوس
یہ چند چیزیں وقار آ بچیں محبت میں
حصولِ جسم، ضرورت، دغا، فتور، ہوس
وقار خان
No comments:
Post a Comment