Thursday 23 September 2021

انا کے موڑ پہ بچھڑے تو ہمسفر نہ ملے

 انا کے موڑ پہ بچھڑے تو ہمسفر نہ ملے

ہم ایک شہر میں رہ کر بھی عمر بھر نہ ملے

میں ڈھونڈتا ہی پِھرا لے کے چاندنی اپنی

وہ دشتِ شب کے ستارے جو تا سحر نہ ملے

نگاہ اٹھائی تو پتوں کا رقص جاری تھا

بڑھایا ہاتھ تو وہ پھول شاخ پر نہ ملے

مِرا شمار بھی ان طائروں میں ہے کہ جنہیں

شعور اڑان کا ہے اور بال و پر نہ ملے

نہالِ فن کا عجب رنگِ فکر ہے تنویر

جو اپنے خون سے سینچے، اسے ثمر نہ ملے

ہلا ہلا کے ہمیں ہاتھ، وہ بلاتے تھے

گئے جو پاس کبھی، دشت کے شجر نہ ملے


تنویر سیٹھی

No comments:

Post a Comment