انا کے موڑ پہ بچھڑے تو ہمسفر نہ ملے
ہم ایک شہر میں رہ کر بھی عمر بھر نہ ملے
میں ڈھونڈتا ہی پِھرا لے کے چاندنی اپنی
وہ دشتِ شب کے ستارے جو تا سحر نہ ملے
نگاہ اٹھائی تو پتوں کا رقص جاری تھا
بڑھایا ہاتھ تو وہ پھول شاخ پر نہ ملے
مِرا شمار بھی ان طائروں میں ہے کہ جنہیں
شعور اڑان کا ہے اور بال و پر نہ ملے
نہالِ فن کا عجب رنگِ فکر ہے تنویر
جو اپنے خون سے سینچے، اسے ثمر نہ ملے
ہلا ہلا کے ہمیں ہاتھ، وہ بلاتے تھے
گئے جو پاس کبھی، دشت کے شجر نہ ملے
تنویر سیٹھی
No comments:
Post a Comment