Thursday 23 September 2021

کیا کوئی یاد ترے دل کو دکھاتی ہے ہوا

 کیا کوئی یاد تِرے دل کو دکھاتی ہے ہوا

سرد سناٹے میں کیوں شور مچاتی ہے ہوا

یہ خبر دی ہے پرندوں نے چلو سنتے ہیں

جھیل کے پاس کوئی گیت سناتی ہے ہوا

باغ مُرجھائے چمن رویا ہوئے دشت اداس

سب کو مایوس کہاں چھوڑ کے جاتی ہے ہوا

خُوشبوؤ! آؤ، ٹھہر جاؤ ہمارے آنگن

پھر اشاروں میں بہاروں کو بلاتی ہے ہوا

جو گیا لوٹ کے آیا ہی نہیں سرحد سے

اب کسے دشت میں آواز لگاتی ہے ہواُ

جھنڈ میں لوٹنے لگتے ہیں سنہرے پنچھی

سُوکھتی شاخوں پہ جب پُھول کھلاتی ہے ہوا

خیر مقدم کے لیے بند دریچے کھولو

ناز و انداز سے کس شان سے آتی ہے ہوا


راشد انور

No comments:

Post a Comment