Sunday 26 September 2021

وہ مرے دھیان سے نکل آیا

 وہ مِرے دھیان سے نکل آیا

پھول گلدان سے نکل آیا

اس نے سوچا تھا فائدہ اپنا

اور میں نقصان سے نکل آیا

اک سفر پاؤں میں پڑا ہوا تھا

ایک سامان سے نکل آیا

پھر کنارے بھی آ گئے نزدیک

جب میں طوفان سے نکل آیا

سائے کو دیکھ کر مقابل میں

جسم میدان سے نکل آیا

آئینہ شرک کر رہا تھا عزیز

میں تو ایمان سے نکل آیا


ارشد عزیز

No comments:

Post a Comment