Friday 24 September 2021

صدا فریاد کی آئے کہیں سے

 صدا فریاد کی آئے کہیں سے

وہ ظالم بد گماں ہو گا ہمیں سے

خدا سمجھے بتِ سحر آفریں سے

گریباں کو لڑایا آستیں سے

چمن ہے شعلۂ گل سے چراغاں

بہار آئی نوائے آتشیں سے

خِرد ہے اب بھی جس کے حل سے عاجز

وہ نکتے حل کیۓ ہم نے یقیں سے

سلامت وسعت آباد محبت

بہت آگے ہیں ہم دنیا و دِیں سے

معاذ اللہ، جلال اس آستاں کا

ٹپک پڑتے ہیں سجدے خود جبیں سے


اقبال سہیل

No comments:

Post a Comment