نایاب اس قدر مجھے تحفہ نہ دیجیۓ
صحرا کو منہ دکھائی میں دریا نہ دیجیۓ
تعبیر میرے خواب کی ہو جائے گی اُلٹ
سو دشمنی نبھائیے،۔ بوسہ نہ دیجیۓ
چوسا ہے خون آپ نے ہر دم غریب کا
رُکیۓ، حرام مال سے صدقہ نہ دیجیۓ
مت ہاتھ میرے خون سے رنگین کیجیۓ
میں کہہ رہا ہوں آپ سے حصہ نہ دیجیۓ
گر چاہتے ہیں آپ سکوں ہمرکاب ہو
دل کی زمین پر اسے قبضہ نہ دیجیۓ
میں خود ہی لیٹ جاؤں گا مٹی کی گود میں
کچھ فاصلے کی بات ہے کندھا نہ دیجیۓ
فرہاد پھر کہانی میں ہو گا برائے نام
سنیۓ ہمارے ہاتھ میں تیشہ نہ دیجیۓ
گھڑیاں نزولِ شعر کی ہیں انتظار میں
ماجد نمازِ عشق میں وقفہ نہ دیجیۓ
ماجد جہانگیر مرزا
No comments:
Post a Comment