Friday 24 September 2021

جگنو مرے نصیب کے لا کر اجال دے

 جگنو مِرے نصیب کے لا کر اُجال دے

غم کی سیاہ رات کو اب تو زوال دے

رو رو کے بھر گئی ہے غموں سے یہ زندگی

دکھ سے بچا لے اور مِری خوشیاں اُچھال دے

گرد و غبار آندھی و طوفاں میں ہیں گھرے

کنکر گرے ہیں آنکھ میں ان کو نکال دے

بھر مانگ میں مِری وہ ستاروں سے روشنی

ایسی کہ جس کی آ کے زمانہ مثال دے

پائے تخیلات ہوں رقصاں زمین پر

دیپک بنا کے لفظ پھر ان کو دھمال دے

گلشن کے ہر گلاب کی خوشبو سنبھال رکھ

دامن میں گلستان کے مہکا جمال دے


ثمینہ گل

No comments:

Post a Comment