اس کی تصویر بناتے ہوئے مر جاتے ہیں
جذبے قرطاس پہ لاتے ہوئے مر جاتے ہیں
اس کے آنے کی خبر ہی نہیں ملتی کوئی
اپنی دہلیز سجاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم تو اس شہر میں رہتے ہیں جہاں پر بچے
ننگ و افلاس چھپاتے ہوئے مر جاتے ہیں
جانے کیسی ہے طلسماتی ہماری بستی
لوگ امداد کو آتے ہوئے مر جاتے ہیں
اس فراوانئ انسان میں اکثر انساں
گیت تنہائی کا گاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ان کی مرقد پہ تو لازم ہے چراغاں کرنا
وہ جو امید جگاتے ہوئے مر جاتے ہیں
وہ پہنچ جاتے ہیں معراجِ ہنر پر اکرام
جو اسے درد سناتے ہوئے مر جاتے ہیں
اکرام افضل
No comments:
Post a Comment