Friday 24 September 2021

اس کی تصویر بناتے ہوئے مر جاتے ہیں

 اس کی تصویر بناتے ہوئے مر جاتے ہیں

جذبے قرطاس پہ لاتے ہوئے مر جاتے ہیں 

اس کے آنے کی خبر ہی نہیں ملتی کوئی

اپنی دہلیز سجاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہم تو اس شہر میں رہتے ہیں جہاں پر بچے

ننگ و افلاس چھپاتے ہوئے مر جاتے ہیں

جانے کیسی ہے طلسماتی ہماری بستی

لوگ امداد کو آتے ہوئے مر جاتے ہیں

اس فراوانئ انسان میں اکثر انساں

گیت تنہائی کا گاتے ہوئے مر جاتے ہیں 

ان کی مرقد پہ تو لازم ہے چراغاں کرنا

وہ جو امید جگاتے ہوئے مر جاتے ہیں 

وہ پہنچ جاتے ہیں معراجِ ہنر پر اکرام

جو اسے درد سناتے ہوئے مر جاتے ہیں 


اکرام افضل

No comments:

Post a Comment