Friday 24 September 2021

میاں یہ عشق ہے مت دیکھ اس کو حیرت سے

میاں یہ عشق ہے مت دیکھ اس کو حیرت سے

کہ جا کہ ملتا ہے اس کا نصب حقیقت سے

چراغ باندھ کے گٹھڑی میں بیچنے چلا ہوں

جو جگمگایا نہیں روشنی کی نسبت سے

وہ بیٹھا روتا رہا دیر تک اکیلا ہی

اْتار کر مِرے چہرے کو اپنی صورت سے

پڑیں گی اور خراشیں اسے جراحت میں

یہ دل ہے ٹھیک نہ ہو گا کبھی مرمت سے

ہم اپنے شہر میں کچھ اور بھی امیر ہوئے

ہمارا عشق بڑھا درد کی تجارت سے

وہ روشنی جو دکھائی کبھی نہیں دیتی

ہے تابناک زمانہ اسی حقیقت سے

میں اس کے سینے سے دل کو چرا کے لایا ہوں

ہوس کے فن سے نہیں آنکھ کی مہارت سے


زعیم رشید

No comments:

Post a Comment