عجب اس نے رویہ کر لیا ہے
حقیقت سے تقیہ کر لیا ہے
ندی نے بحر میں آنے سے پہلے
بدل کے نام دریا کر لیا ہے
نہیں ملنے کا تم نے مجھ سے جاناں
بہانہ پھر مہیا کر لیا ہے
مجھے بدنام کرنے کیلئے ہی
تِرے دل نے تہیہ کر لیا ہے
بچانے کیلئے جادو سے اس نے
بدن اپنا رقیہ کر لیا ہے
امتیاز قیصر
No comments:
Post a Comment