Wednesday, 1 September 2021

عاشق جو اس گلی کا بھی مر کر چلا گیا

 عاشق جو اس گلی کا بھی مر کر چلا گیا 

دنیا سے ایک اور قلندر چلا گیا 

غربت کا اپنے حال تجھے اور کیا کہوں 

اک دن تو اک فقیر بھی اٹھ کر چلا گیا

فرعون اپنے دور کا زندہ ہے آج بھی

دنیا سمجھ رہی تھی ستم گر چلا گیا

چاقو پہ ہے نشان کسی بے گناہ کا 

قاتل تو ہاتھ میں لیے خنجر چلا گیا

وہ تنکا جوڑ کر کے نشیمن جو تھا بنا 

بستی کی آگ میں وہ مِرا گھر چلا گیا 

امید کر چکا تھا نئے سال سے بہت 

اک اور زخم دے کے دسمبر چلا گیا


خان جانباز

No comments:

Post a Comment