کسی دن
سنو
میں کسی دن سناؤں گا تم کو
یہاں مجھ پہ دن رات کیا بیتتی ہے
سو اس دن ذرا اپنا دل تھام رکھنا
دِیوں کو جلا کر
سرِ بام رکھنا
کہ اس داستاں میں
اندھیروں کا بے انتہا ذکر ہو گا
سنو
میں کسی دن بتاؤں گا تم کو
کہ جتنی محبت
مجھے تم سے بس چار دن میں ہوئی ہے
کسی کو نہ یاں چار برسوں میں ہو گی
سو اس دن ذرا
اپنی سانسوں کی لہروں کو ہموار رکھنا
سبھی کھڑکیوں، روزنوں، در، دریچوں پہ
تہہ دار پردوں کی بھرمار رکھنا
کہ اشکوں سے بھیگے
اس اظہارِ اُلفت کی تہہ میں دبی ہوں گی
اس دل میں گُھٹ گُھٹ کے رہ جانے والی
وہ بے صوت چیخیں
کہ جن کو تمہاری سماعت سے میں نے
بہت دور رکھا
سنو
چُھپ کے آغوش میں میں تمہاری
بہت روؤں گا ہچکیوں سے کسی دن
سنو
میں کسی دن
کسی دن
بہزاد برہم
No comments:
Post a Comment