ستم ہر دور میں کچھ اس طرح منظر بدلتا ہے
فرازِ دار کی خاطر فقط ہر اک سر بدلتا ہے
بساطِ زیست پر اُس کو ہمیشہ مات ہوتی ہے
پیادے کی جگہ جو بادشاہ کا گھر بدلتا ہے
کسی بھی حال میں تم آئینے کو دوش مت دینا
کہ یہ تو صرف منظر کا پسِ منظر بدلتا ہے
عجب ہے مفلسی کہ سانس بھی بارِ گراں ہے اب
وگرنہ میرا دل بھی خواب کے پیکر بدلتا ہے
بظاہر تو اُسے دعویٰ مسیحائی کا ہے ہر دم
مگر وہ گفتگو میں طنز کے نشتر بدلتا ہے
محبت جب یقیں کے دائرے میں رقص کرتی ہے
گماں چپکے سے زیر آستیں خنجر بدلتا ہے
بہت سفاک تھا جس کا رویہ عمر بھر مجھ سے
وہی حیراں ہے اب کہ کیوں نہیں اختر بدلتا ہے
سہیل اختر
No comments:
Post a Comment