Sunday 26 September 2021

اے مرے شہر کے افسانہ گرو یہ بھی لکھو

 اے مِرے شہر کے افسانہ گرو! یہ بھی لکھو


کیسے افلاس زدہ ماں کی امیدوں کے چراغ

لمحہ لمحہ کبھی جلتے ہیں کبھی بجھتے  ہیں

کیسے اک باپ شب و روز بچوں کی خاطر

محنت و کرب و مشقت میں بسر کرتے ہیں

 اے مِرے شہر کے افسانہ گرو! یہ بھی لکھو


کس قدر خوف بسا رہتا ہے ان کوچوں میں

جن میں لاچار و زبوں حال بشر رہتے ہیں

کس طرح تیسری دنیا کے مکینوں کی حیات

ایک ہی جنبشِ ابرو سے بدل جاتی ہے

 اے مِرے شہر کے افسانہ گرو! یہ بھی لکھو


کیسے  افلاس کے مارے ہوئے بچوں کا نصیب

ننھے لہجوں میں ہمیشہ کی تھکن گھولتا ہے

ان کی نم دیدہ نگاہوں کے سبھی خواب نگر

کیسے احساس کی دھرتی پہ بکھر جاتے ہیں

اے مِرے شہر کے افسانہ گرو! یہ بھی لکھو


آہ وہ لوگ جنہیں چشمِ فلک نے ہمدم

زندہ رہنے کے لیے بارہا مرتے دیکھا

آہ وہ دیس کہ جس دیس کے بازاروں میں

ہم نے ایمان کسی ہاتھ پہ بکتے دیکھا

 اے مِرے شہر کے افسانہ گرو! یہ بھی لکھو


تصور سمیع

No comments:

Post a Comment