Sunday 26 September 2021

میرے سینے سے لگ مجھ کو آرام دے

 دل آنگن میں اگتے پھول


میری ہجرِ مسلسل کے صحرا میں 

تپتی جھلستی ہوئی زندگانی کی 

اس رائیگاں دوپہر کو

محبت کی بارش میں بھیگی ہوئی

کوئی اک شام دے

میں بھلا کب تلک

یونہی بے نام سے دائروں میں 

تری اس نظر سے یوں کوسوں پرے جی رہوں

میں بھلا کب تلک

تیری ہو کے بھی 

دنیا سے اپنا تعلق چھپانے کا ناٹک کروں

میرے بے نامیوں کے گھنیرے اندھیروں میں 

کچھ روشنی کا وسیلہ بنا

مجھ کو اک نام دے

میری برفاف ٹھٹھری سی یہ انگلیاں

اپنے ہونٹوں پہ رکھ

میری تہ میں پڑے 

منجمد اس بدن کا بھی ادراک کر

آگ ہی کچھ جلا

مجھ کو مجھ سے ملا

میرے سوکھے لبوں کو 

محبت بھرا وصل کا جام دے

میں کہ تیری جدائی کو 

سینے لگائے ہوئے جی رہی تھی

چُبھن میری شریانوں میں رچ گئی تھی

تُو میرے اُدھڑتے بدن پر زرا رحم کر

اب جو تُو آ گیا ہے، تو آ

میرے سینے سے لگ

مجھ کو آرام دے


بشریٰ شاہ

بشریٰ شہزادی

No comments:

Post a Comment