جیتے ہو نہ ڈھب سے مرتے ہو
کیا کرتے ہو؟
جاتے ہوئے سالوں کو مُڑ کے یوں تکتے ہو
جیسے ان پر تم حق اپنا سب رکھتے ہو
کیا کرتے ہو؟
مُٹھی میں ریت پھسلنے سے
سُورج کے تھک کر ڈھلنے سے
خود اپنے ساتھ بھی چلنے سے
تم ڈرتے ہو
کیا کرتے ہو؟
ہر وقت خلش سی رہتی ہے
آنکھوں سے نہر سی بہتی ہے
قدرت شاید یہ کہتی ہے
جو کرتے ہو، وہ بھرتے ہو
کیا کرتے ہو؟
سلمان صدیق
No comments:
Post a Comment