اس بے کفن ضمیر پہ شرمندہ کون ہے
میں سوچتا ہوں شہر میں اب زندہ کون ہے
اس بزمِ کم سواد میں منظر نگارِ زیست
اس وقت تک تو میں رہا، آئندہ کون ہے
کس کی صدا نے آگ کا جادو جگا دیا
نغمہ نواز کون، یہ سازندہ کون ہے
کس نے یہاں بنائے ہیں یہ ریت کے حصار
صحرائیوں میں شہر کا باشندہ کون ہے
گرمِ سفر ہے آج بھی جو کربلا کی سمت
اس وفدِ اہلِ دل کا نمائندہ کون ہے
کس کی جبیں پہ زخم کی تازہ لکیر ہے
سورج کی طرح آج یہ تابندہ کون ہے
میں ہی سہی جہان میں اک نقشِ بے ثبات
جو میں نہیں تو پھر یہاں پائندہ کون ہے
وفا حجازی
No comments:
Post a Comment