Sunday 26 September 2021

اس بے کفن ضمیر پہ شرمندہ کون ہے

 اس بے کفن ضمیر پہ شرمندہ کون ہے

میں سوچتا ہوں شہر میں اب زندہ کون ہے

اس بزمِ کم سواد میں منظر نگارِ زیست

اس وقت تک تو میں رہا، آئندہ کون ہے

کس کی صدا نے آگ کا جادو جگا دیا

نغمہ نواز کون، یہ سازندہ کون ہے

کس نے یہاں بنائے ہیں یہ ریت کے حصار

صحرائیوں میں شہر کا باشندہ کون ہے

گرمِ سفر ہے آج بھی جو کربلا کی سمت

اس وفدِ اہلِ دل کا نمائندہ کون ہے

کس کی جبیں پہ زخم کی تازہ لکیر ہے

سورج کی طرح آج یہ تابندہ کون ہے

میں ہی سہی جہان میں اک نقشِ بے ثبات

جو میں نہیں تو پھر یہاں پائندہ کون ہے


وفا حجازی

No comments:

Post a Comment