Sunday 26 September 2021

اپنے حصے میں ہی آنے تھے خسارے سارے

اپنے حصے میں ہی آنے تھے خسارے سارے 

دوست ہی دوست تھے بستی میں ہمارے سارے 

زیر لب آہ، نمی آنکھ میں، چپ چپ تنہا 

ایسے ہی ہوتے ہیں یہ درد کے مارے سارے 

خواب، امید، تمنائیں، تعلق، رشتے 

جان لے لیتے ہیں آخر یہ سہارے سارے 

تجھ کو اک لفظ بھی کہنے کی ضرورت کیا ہے 

ہم سمجھتے ہیں مِری جان اشارے سارے 

عشق کیا اتنا بڑا جرم ہے؟ جس پر یاور

دشمن جان ہوئے جان سے پیارے سارے 

آئے جب تیرے مقابل تو کُھلا کچھ بھی نہیں 

گل بدن، ماہ جبیں نور کے دھارے سارے 

ہار ہی جیت ہے آئینِ وفا کی رو سے 

یہ وہ بازی ہے جہاں جیت کے ہارے سارے 

حسن خود قانع ہوا لعل و گہر پر ورنہ 

ہم تو افلاک سے لے آتے ستارے سارے 

کون کافر ہے یہ جب پوچھا گیا واعظ سے 

اوج منبر سے صدا آئی کہ سارے سارے 

ڈوبنا لکھا ہو تقدیر میں عمران اگر 

آپ بن جاتے ہیں گرداب کنارے سارے 


عمران الحق

No comments:

Post a Comment