جلتی دوپہروں میں اک سایہ سا زیر غور ہے
بجھتی آنکھوں میں کوئی چہرہ سا زیر غور ہے
اب کے میں زندہ یا پھر سے مر جاؤں سہیل
فیصلہ سب ہو چکا تھوڑا سا زیر غور ہے
اتنی ویرانی میں روشن ہو تِری تصویر کب
اس سلگتے جسم میں شعلہ سا زیر غور ہے
جسم کے آئینے میں شعلہ سا رکھا ہے سوال
پاؤں کی زنجیر کو حلقہ سا زیر غور ہے
نیند اڑتی ہی رہی خوابوں کے جنگل میں سدا
آسماں پر چاند کا خاکہ سا زیر غور ہے
گر گئی تاریخ میرے ہاتھ سے احمد سہیل
اک نئے انسان کا خاکہ سا زیر غور ہے
احمد سہیل
No comments:
Post a Comment