Friday 24 September 2021

جلتی دوپہروں میں اک سایہ سا زیر غور ہے

 جلتی دوپہروں میں اک سایہ سا زیر غور ہے 

بجھتی آنکھوں میں کوئی چہرہ سا زیر غور ہے

اب کے میں زندہ یا پھر سے مر جاؤں سہیل

فیصلہ سب ہو چکا تھوڑا سا زیر غور ہے

اتنی ویرانی میں روشن ہو تِری تصویر کب

اس سلگتے جسم میں شعلہ سا زیر غور ہے

جسم کے آئینے میں شعلہ سا رکھا ہے سوال

پاؤں کی زنجیر کو حلقہ سا زیر غور ہے

نیند اڑتی ہی رہی خوابوں کے جنگل میں سدا

آسماں پر چاند کا خاکہ سا زیر غور ہے

گر گئی تاریخ میرے ہاتھ سے احمد سہیل

اک نئے انسان کا خاکہ سا زیر غور ہے


احمد سہیل

No comments:

Post a Comment