میرا افسانہ جدا تیری کہانی اور ہے
غم کا راجہ اور ہے خوشیوں کی رانی اور ہے
فرق لہجوں کا ہوا کرتا ہے لفظوں کا نہیں
ہے الگ شعلہ فشانی خوش بیانی اور ہے
میں تو اس کے بس میں ہوں مدت سے ہوں اس کا اسیر
جیت ہے تازہ کوئی یہ کامرانی اور ہے
نام لے کر جس طرح اس نے پکارا ہے مجھے
اس کے اس لہجے سے مجھ کو خوش گمانی اور ہے
اب کے شاید اس پہ بھی مشکل رہا ہجر و فراق
اب کے مہمانوں سے طرز میزبانی اور ہے
جانے کس کے لمس کی اب کے تمنا ہے انہیں
ان بہاروں میں گلابوں پر جوانی اور ہے
مسکرانا تو ہے اس کی عام سی عادت نعیم
اس کے اظہار محبت کی نشانی اور ہے
نعیم جاوید
No comments:
Post a Comment