Thursday 23 September 2021

اتنی حیرت سے دیکھتا کیا ہے

 اتنی حیرت سے دیکھتا کیا ہے

میری صورت پہ کچھ لکھا کیا ہے

آئینہ سوچ میں تو ہے، لیکن

سوچتا ہوں یہ سوچتا کیا ہے

شور کیسا ہے چوک سے آگے

آؤ، دیکھیں معاملہ کیا ہے

دل لگانا کسی حسینہ سے

پھر میں پوچھوں گا حوصلہ کیا ہے

لوگ پہلو دبائے پھرتے ہیں

شہرِ جاناں میں ہو رہا کیا ہے

اے مِرے زُود رنج! یہ تو بتا

میں نے تجھ سے بھلا کہا کیا ہے

کس قدر بوجھ ہے سماعت پر

میرے کانوں نے یہ سنا کیا ہے

بھاگتے پھر رہے ہیں سڑکوں پر

کوئی پوچھے تو مسئلہ کیا ہے

اس کےآنکھوں کے نیلے پانی میں

ایک قطرہ یہ لال سا کیا ہے

اس کی آنکھوں میں خواب روشن ہیں

اس کی پلکوں پہ رت جگا کیا ہے

اے مِرے چارہ گر! توقف کر

پوچھ تو لے مجھے ہوا کیا ہے

پاؤں اندر ہیں دھیان باہر ہے

سچ بتاؤ، معاملہ کیا ہے

اِک مسلسل دھمال ہے شاہد

دھڑکنوں کا یہ سلسلہ کیا ہے


افتخار شاہد

No comments:

Post a Comment