Wednesday 22 September 2021

موت دہليز پر پڑی ہوئی ہے

 موت دہليز پر پڑی ہوئی ہے

زندگی سامنے کھڑی ہوئی ہے

درد بانٹے کسی کا کیا کوئی

سب کو اپنی یہاں پڑی ہوئی ہے

آ تو جاتے شمار میں اُس کے

یار چھانٹی بہت کڑی ہوئی ہے

وہ کسی اور کو نہ دیکھے گا

آنکھ جس سے مِری لڑی ہوئی ہے

یہ نگینہ نہیں انگوٹھی میں

اس میں چاہت تِری جڑی ہوئی ہے

آپ بیتی سنا رہے ہو مجھے

یا کہانی کوئی گھڑی ہوئی ہے

دیکھ بخیے اُدھڑ گئے ارشد

نیک نامی مگر بڑی ہوئی ہے


ارشد محمود

No comments:

Post a Comment