موت دہليز پر پڑی ہوئی ہے
زندگی سامنے کھڑی ہوئی ہے
درد بانٹے کسی کا کیا کوئی
سب کو اپنی یہاں پڑی ہوئی ہے
آ تو جاتے شمار میں اُس کے
یار چھانٹی بہت کڑی ہوئی ہے
وہ کسی اور کو نہ دیکھے گا
آنکھ جس سے مِری لڑی ہوئی ہے
یہ نگینہ نہیں انگوٹھی میں
اس میں چاہت تِری جڑی ہوئی ہے
آپ بیتی سنا رہے ہو مجھے
یا کہانی کوئی گھڑی ہوئی ہے
دیکھ بخیے اُدھڑ گئے ارشد
نیک نامی مگر بڑی ہوئی ہے
ارشد محمود
No comments:
Post a Comment