Wednesday 22 September 2021

حال کچھ اب کے جدا ہے ترے دیوانوں کا

 حال کچھ اب کے جدا ہے تِرے دیوانوں کا

شہر میں ڈھیر نہ لگ جائے گریبانوں کا

یہ مِرا ضبط ہے یا تیری ادا کی تہذیب

رنگ آنکھوں میں جھلکتا نہیں ارمانوں کا

مے کدے کے یہی آداب ہیں رِندو! سن لو

غم نہیں کرتے ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا

سانس لینے کو کوئی اور ٹھکانا ڈھونڈو

شہر جنگل سا ہوا جاتا ہے انسانوں کا

اب حقیقت کی تہوں تک کوئی کیسے پہونچے

ایک طوفان بپا ہے یہاں افسانوں کا


یوسف تقی

No comments:

Post a Comment