Wednesday 22 September 2021

وہ اور لوگ تھے جو راستے بدلتے رہے

 وہ اور لوگ تھے جو راستے بدلتے رہے

سفر ہے شرط سو ہم نیند میں بھی چلتے رہے

پگھل رہا تھا یگوں سے وجود کا لاوا

خیال و خواب مِرے پتھروں میں ڈھلتے رہے

انہیں قبول مِری رہبری نہ تھی، لیکن

مخالفین مِرے ساتھ ساتھ چلتے رہے

جنہیں نصیب ہوا ان کو بخش دی رونق

میں جن کے ہاتھ نہ آیا وہ ہاتھ ملتے رہے

اگرچہ ذوقِ سفر میں کمی نہیں آئی

قدم قدم پہ مگر زاویے بدلتے رہے

ابھر جو آئے سرِ شام آتشیں لمحے

سفر میں برف بدن دیر تک پگھلتے رہے


راشد انور

No comments:

Post a Comment