Friday 24 September 2021

ایسا نہ ہو کے بات نکل جائے ہاتھ سے

 ایسا نہ ہو کے بات نکل جائے ہاتھ سے

اک دن تمہارا ہاتھ نکل جائے ہاتھ سے

آؤ، ستارے گنتے ہیں دریا پہ بیٹھ کر

اک بار پھر نہ رات نکل جائے ہاتھ سے

ڈرتا ہوں چاندنی، دلِ آشفتہ اور تُو

یہ سب نہ ایک ساتھ نکل جائے ہاتھ سے

میں چور، تم کو دیکھنے لگ جاؤں اور یوں

یہ وقتِ واردات نکل جائے ہاتھ سے

دم لوں گا توڑ کر ہی بُتِ خوبرو تِرا

پھر چاہے سومنات نکل جائے ہاتھ سے


زاہد بشیر

No comments:

Post a Comment