ایسا نہ ہو کے بات نکل جائے ہاتھ سے
اک دن تمہارا ہاتھ نکل جائے ہاتھ سے
آؤ، ستارے گنتے ہیں دریا پہ بیٹھ کر
اک بار پھر نہ رات نکل جائے ہاتھ سے
ڈرتا ہوں چاندنی، دلِ آشفتہ اور تُو
یہ سب نہ ایک ساتھ نکل جائے ہاتھ سے
میں چور، تم کو دیکھنے لگ جاؤں اور یوں
یہ وقتِ واردات نکل جائے ہاتھ سے
دم لوں گا توڑ کر ہی بُتِ خوبرو تِرا
پھر چاہے سومنات نکل جائے ہاتھ سے
زاہد بشیر
No comments:
Post a Comment