Saturday 25 September 2021

ہوا کرے اگر اس کو کوئی گلہ ہو گا

 ہوا کرے اگر اس کو کوئی گلہ ہو گا

زباں کھلی ہے تو پھر کچھ تو فیصلہ ہو گا

کبھی کبھی تو یہ دل میں سوال اٹھتا ہے

کہ اس جدائی میں کیا اس نے پا لیا ہو گا

وہ گرم گرم نفس کیسے ٹھہرتے ہوں گے

اب ان شبوں کو وہ کیسے گزارتا ہو گا

کبھی جو گزروں تِرے شہر سے تو سوچتا ہوں

کہ اس زمین پہ کیا کیا قدم پڑا ہو گا

خوشا وہ رونق ہنگامۂ وصال اب تو

یقین ہی نہیں آتا کہ یوں ہوا ہو گا

وہ کھوئی کھوئی وفاؤں کا بُھولا بِسرا گیت

کبھی تو اس کے شبستاں میں بھی گیا ہو گا

نکل پڑے تھے یوں ہی ہم تو ایک دن گھر سے

کسے خبر تھی کہ یوں تم سے سامنا ہو گا

تِری برات میں دن بھر یہی خیال رہا

کہ اس خوشی کا اثر تیرے دل پہ کیا ہو گا

کبھی اٹھے ہی نہیں ہم تلاش کو ورنہ

کوئی تو شہر میں اپنا بھی آشنا ہو گا

یہ ہولناک خموشی جدائی کا آشوب

میں سوچتا ہوں کہ یوں ہی رہا تو کیا ہو گا

پھر آج شام سے ہی ذہن کو فراغت ہے

پھر آج شب وہی یادوں کا سلسلہ ہو گا

کس آرزو میں اٹھے کس طرح چلے انجم

اس آدھی رات میں اب کس کا در کھلا ہو گا


انوار انجم

No comments:

Post a Comment