Saturday 25 September 2021

رہنا لازم تھا سو، رہے ہیں ہم

 رہنا لازم تھا سو، رہے ہیں ہم

ایک پیکر میں دو رہے ہیں ہم

دوستا! تجھ کو رو چکے کب کا

اب یتیمی کو رو رہے ہیں ہم

سیب اُگتے نہیں ببولوں پر

کاٹ لیں گے جو بو رہے ہیں ہم

پوچھتے ہو حیات کا قصہ؟

بوجھ ہے جس کو ڈھو رہے ہیں ہم

ذکرِ خوباں ہے، وہ بھی اردو میں

گویا موتی پرو رہے ہیں ہم

اب جو یاد آئیں تو بلانا مت

دائمی نیند سو رہے ہیں ہم

"حادثہ ایک دم نہیں ہوتا"

سانحہ ہیں سو ہو رہے ہیں ہم

کام مشکل ہے وقت لے گا ابھی

یاد کا داغ دهو رہے ہیں ہم

آنکھ میں کرچیاں سی چُبھتی ہیں

اور تکیہ بھگو رہے ہیں ہم


بشریٰ مسعود

No comments:

Post a Comment