Saturday 25 September 2021

گرفت سایۂ دیوار سے نکل آیا

 گرفتِ سایۂ دیوار سے نکل آیا

میں ایک عمر کے آزار سے نکل آیا

نہ جاننا بھی تو اک جاننے کی صورت ہے

عجیب رُخ مِرے انکار سے نکل آیا

میں اپنی قیمتِ احساس کے جواز میں تھا

سو یہ ہوا کہ میں بازار سے نکل آیا

ابھی رُکے بھی نہ تھے ہم پڑاؤ کی خاطر

نیا سفر نئی رفتار سے نکل آیا

سمجھ رہے تھے کہیں دفن ہو گیا ہو گا

وہ خوف پھر در و دیوار سے نکل آیا

میں چُپ ہوا تو اسے بولنا ہی تھا اک دن

وہ زندہ حرف لبِ دار سے نکل آیا

کسی خیال سے کیا کیا خیال جاگ اُٹھے

یہ شُغل لمحۂ بے کار سے نکل آیا


اسحاق اطہر صدیقی

No comments:

Post a Comment