Thursday 23 September 2021

یہ میرے رخ پہ کھنچی ہے جو خامشی کی لکیر

 یہ میرے رخ پہ کھنچی ہے جو خامشی کی لکیر

دہن نہیں ہے، یہ ہے ضبط و بے بسی کی لکیر

تبھی تو ہاتھ کسی کے بھی کچھ نہیں آتا

کہ ہاتھ بھر ہی تو ہوتی ہے زندگی کی لکیر

تمہاری یاد کا پَل ہے ستارۂ دُم دار

ابھی بھی دل کے فلک پر ہے روشنی کی لکیر

یہ آئینہ ہے کہ چہرہ تڑخ گیا میرا

بہت دنوں سے ہی گالوں پہ ہے نمی کی لکیر

جو لفظ غم میں لکھے، ان میں خوش خطی کیسی

کسی کا دائرہ ٹیڑھا ہے تو کسی کی لکیر


بہزاد برہم

No comments:

Post a Comment