یہ میرے رخ پہ کھنچی ہے جو خامشی کی لکیر
دہن نہیں ہے، یہ ہے ضبط و بے بسی کی لکیر
تبھی تو ہاتھ کسی کے بھی کچھ نہیں آتا
کہ ہاتھ بھر ہی تو ہوتی ہے زندگی کی لکیر
تمہاری یاد کا پَل ہے ستارۂ دُم دار
ابھی بھی دل کے فلک پر ہے روشنی کی لکیر
یہ آئینہ ہے کہ چہرہ تڑخ گیا میرا
بہت دنوں سے ہی گالوں پہ ہے نمی کی لکیر
جو لفظ غم میں لکھے، ان میں خوش خطی کیسی
کسی کا دائرہ ٹیڑھا ہے تو کسی کی لکیر
بہزاد برہم
No comments:
Post a Comment