Thursday 23 September 2021

گوگل پہ اس کے گاؤں کا نقشہ تو ہے نہیں

 گوگل پہ اس کے گاؤں کا نقشہ تو ہے نہیں

رستہ بھی میں نے ٹھیک سے پوچھا تو ہے نہیں

تم کہہ رہے ہو؛ لوٹ کے آیا ہُوا ہے وہ

کھڑکی سے ایک بار بھی جھانکا تو ہے نہیں

گردان آؤ، آؤ، کی کرتا رہا ہوں میں

پنچھی مِری منڈیر پہ اُترا تو ہے نہیں

اب کس طرح مناتا رہوں اس کو بار بار

پچپن برس کا شخص ہے بچہ تو ہے نہیں

یہ دو دلوں کا رابطہ ٹوٹے بھی کس طرح

بندھن کسی کے پیار کا دھاگہ تو ہے نہیں

تم ہی بتا دو پاؤں کے چھالوں کا کیا کروں

اس دشتِ خار زار میں رکنا تو ہے نہیں

ارشد! ملی جو زندگی زندہ دلی سے جی

پھر لوٹ کر جہان میں آنا تو ہے نہیں


ارشد محمود

No comments:

Post a Comment