Sunday 26 September 2021

زبانوں پر نہیں اب طور کا فسانہ برسوں سے

 زبانوں پر نہیں اب طور کا فسانہ برسوں سے

تجلی گاہِ ایمن ہے دلِ دیوانہ برسوں سے

کچھ ایسا ہے فریبِ نرگسِ مستانہ برسوں سے

کہ سب بھولے ہوئے ہیں کعبہ و بتخانہ برسوں سے

وہ چشمِ فتنہ گر ہے ساقئ مے خانہ برسوں سے

کہ باہم لڑ رہے ہیں شیشہ و پیمانہ برسوں سے

نہ اب منصور باقی ہے نہ وہ دار و رسن لیکن

فضا میں گونجتا ہے نعرۂ مستانہ برسوں سے

چمن کے نونہال اس خاک میں پھولیں پھلیں کیونکر

یہاں چھایا ہوا ہے سبزۂ بے گانہ برسوں سے

یہ آنکھیں مُدتوں سے خوگرِ برقِ تجلی ہیں

نشیمن بجلیوں کا ہے مِرا کاشانہ برسوں سے

تِرے قرباں ادھر بھی ایک جھونکا ابرِ رحمت کا

جبینوں میں گِرہ ہے سجدۂ شکرانہ برسوں سے

سہیل اب کس کو سجدہ کیجیۓ حیرت کا عالم ہے

جبیں خود بن گئی سنگِ درِ جانانہ برسوں سے


اقبال سہیل

No comments:

Post a Comment