Sunday 26 September 2021

دروازے پہ جو آنکھیں ہیں آنکھوں میں جو سپنے ہیں

 دیر سویر تو ہو جاتی ہے


دروازے پہ جو آنکھیں ہیں

آنکھوں میں جو سپنے ہیں

ان سپنوں میں جو مورت ہے

وہ میری ہے

دروازے کے باہر کیا ہے

اک رستہ ہے

جس پر میری یادوں کا شہر بسا ہے

میرا رستہ دیکھنے والی ان آنکھوں کا جال بچھا ہے

مجھے پتا ہے

لیکن ان آنکھوں کو کیسے میں یہ بات بتاؤں

ہر رستہ پہ اتنی بھیڑ چلنا مشکل ہو جاتا ہے

آوازوں کے اس جنگل سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے

دکھ کا ایسا لمحہ آتا ہے ہنسنا مشکل ہو جاتا ہے

جب ایسے حالات کھڑے ہوں

قدموں میں زنجیر کی صورت

روشنیوں کے سائے پڑے ہوں

ایسے میں دل ان آنکھوں سے

ایک ہی بات کہے جاتا ہے

دیر سویر تو ہو جاتی ہے


الماس شبی

No comments:

Post a Comment