Sunday 26 September 2021

جمال یار دکھاؤ بہت اندھیرا ہے

 جمالِ یار دکھاؤ بہت اندھیرا ہے

نہیں تو حشر اُٹھاؤ بہت اندھیرا ہے

یہ خوف ہے کہ نہ گمراہ کر دے منزل سے

جنوں کا سُورج اُگاؤ بہت اندھیرا ہے

بُجھا بُجھا ہے چراغِ تبسم ان کا جب

پھر اپنا زخم جلاؤ بہت اندھیرا ہے

اُبل پڑیں گے اُجالے تمہاری فکروں سے

قلم سے نُور بہاؤ بہت اندھیرا ہے

جو روشنی کے پیمبر تھے وہ کہاں گُم ہیں

انہیں صدا دو بُلاؤ بہت اندھیرا ہے

گُھٹن اندھیروں سے ہونے لگی سلیم بہت

غزل کے دِیپ جلاؤ بہت اندھیرا ہے


سلیم رضا

No comments:

Post a Comment