یار خورشید چراغوں سے کہاں رد ہو گا
چپ رہو، حلق سے ہذیان برآمد ہو گا
اب یہ پتھر کہ جسے لوگ خدا مانتے ہیں
گوتمِ ہند کا اک دور میں برگد ہو گا
ایک نقطے سے یہ تعمیر، چلو مان لیا
اس کرشمے کا مگر کوئی تو مقصد ہو گا
باغ میں ایک شجر، یار! خطا کا رکھنا
خُلد خانے میں نِکوکار مقیّد ہو گا
جنگ کے دیوتا تبدیل کئے جا بھی چکے
شہرِ ہاروت میں مریخ کا مرقد ہو گا
اسپِ ابلق پہ جہاں شان سے اسوار ہوں آج
کل یہ قریہ یقیناً مِرا مشہد ہو گا
آج کا شور، یہ سیٹی، یہ اشارے، چینخیں
کل زبانوں میں ڈھلیں گے، یہی ابجد ہو گا
ایک مظلوم کے خاموش عزاخانے سے
تعزیہ چپ کا بہ صد رنج بر آمد ہو گا
احمد جہانگیر
No comments:
Post a Comment