جانے کس خواب پریشاں کا ہے چکر سارا
بکھرا بکھرا ہوا رہتا ہے مِرا گھر سارا
مطمئن ہم تھے بہت جیت ہماری ہو گی
کیسے پھر آ گیا نرغے میں یہ لشکر سارا
بادۂ غم سے ہے سرشار مِرا باطن بھی
اور اسی غم سے اجالا ہے یہ باہر سارا
میں نے مانگی تھی دعا ٹوٹ کے برسے بادل
اب جو برسا ہے تو برسا ہے یہ چھپر سارا
موسمِ ابر کی تو بات یوں ہی آئی تھی
کیوں شرابور ہوا آپ کا پیکر سارا
میں نے سوچا کہ ستائے گی بہت پیاس مجھے
پی گیا جھونک میں بس آ کے سمندر سارا
کوثر مظہری
No comments:
Post a Comment