دردِ فرقت تُِرا جواب نہیں
تجھ سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں
اس کے ہر حرف میں ہے عکس تِرا
میرے دل سی کوئی کتاب نہیں
تنہا چلتی ہے راہِ ہستی میں
کوئی دھڑکن کا ہمرکاب نہیں
میری آنکھوں میں جھانکنے والے
اِن میں تیرا تو کوئی خواب نہیں
دل ہتھیلی پہ رکھ کے لایا ہوں
اب نہ کہنا؛ نہیں، جناب نہیں
تم نے آنا نہیں تو صاف کہو
ورنہ موسم تو اب خراب نہیں
طور کی جستجو تو ہے مظہر
ایک جلوے کی مجھ میں تاب نہیں
شعیب مظہر
No comments:
Post a Comment