Friday, 5 November 2021

خود جو شیشے کا گھر بناتے ہیں

 خود جو شیشے کا گھر بناتے ہیں

ہاتھ میں سنگ کیوں اٹھاتے ہیں

ایک دن تو سبھی کو مرنا ہے

موت سے کیوں ہمیں ڈراتے ہیں

جو سہارا بنے بڑھاپے میں

پیڑ ایسا کہاں لگاتے ہیں

سجدہ کرتے ہیں وہ مزاروں پر

خود کو مومن مگر بتاتے ہیں

ہم تہی دست ہی رہے اکثر

جیسے آئے تھے، ویسے جاتے ہیں

دوسروں کو جو دے رہے ہیں فریب

خود ہی اکثر فریب کھاتے ہیں

خوف جن کو ہے ٹوٹ جانے کا

ریت پر کیوں محل بناتے ہیں

یوں تو رہتے ہیں وہ زمیں پہ مگر

آسماں کی خبر بھی لاتے ہیں

چاند تاروں کی بستیوں سے نگار

لوگ مایوس لوٹ آتے ہیں


نگار سلطانہ

No comments:

Post a Comment