اب قیس کو وحشت مِری کیسے سمجھ آئے
اس نے کبھی لیلیٰ سے تو پتھر نہیں کھائے
راہوں میں چٹختے ہوئے پتوں کے نگر میں
کوئی نہیں جو مجھ سے مِری جان چھڑائے
ہاں تیری جدائی میں مِرے دل کے خلا کو
یہ ارض و سموٰات بھی پُر کر نہیں پائے
ہم ذات کے تشنہ ہیں سو ہر بات کے تشنہ
چاہے کوئی اب سات سمندر بھی پلائے
قسمت کے ستاروں کو کہاں دیکھ سکے ہم
ہر پہر میں افلاک پہ بادل نظر آئے
تُو تھا تو مِری جان کی ہر چیز تھی روشن
ڈھلتا گیا چہرہ تِرا، بڑھتے گئے سائے
وہ گرز کوئی ڈھونڈ چکا ہے جو فلک کی
اس چھت کا سہارا بنی دیوار گرائے
لگتا تھا تِرا لمس مِرے حلق سے اترا
میں آنکھ کو موندے ہوئے پیتا رہا چائے
میں کوہِ ندا ہوں، مجھے آواز نہ دینا
جو میری طرف چل پڑا چلتا چلا جائے
پلکوں کی یہ چادر بڑی باریک ہے شاید
سو بار اسے اوڑھ کے بھی سو نہیں پائے
اڑتا ہوں گماں میں پرے لفظوں کے قفس سے
اب کوئی بھی مجھ کو نہ مِرا شعر سنائے
عمران! یہاں قافلہ ٹھہرا تھا جنوں کا
یہ دشت بھی اک بار تھا مہمان سرائے
عمران فیروز
No comments:
Post a Comment