سیرِ چمن کروں تو وہاں بھی نہ جی لگےِ
پھولوں کی دلکشی میں تمہاری کمی لگے
اچھائی کو برائی سمجھتے رہے ہو تم
میری ہر ایک بات نہ کیسے بری لگے
جی چاہتا میرا کہ دل کھول کر ہنسوں
لیکن ہنسوں تو اپنی ہنسی کھوکھلی لگے
بیگانہ پن کا جب سے تسلت ہے ذہن پر
اپنا ہر آدمی بھی مجھے اجنبی لگے
چادر اداسیوں کی ہر اک جسم پر ملی
پہلا سا خوش مزاج نہ اب کوئی بھی لگے
اپنوں کی بے رخی سے وہ یکسر بدل گیا
دیکھو شمیم کو تو کوئی اور ہی لگے
شمیم ہاشمی
No comments:
Post a Comment