یہ دستِ ناز میں خط ترجمان کس کا ہے
اگر نہیں ہے تمہارا، بیان کس کا ہے
بساطِ ارض، بسیط آسمان کس کا ہے
ہمارے دل میں نہاں یہ جہان کس کا ہے
یہ پھوٹ پھوٹ کے روتے ہیں کیوں در و دیوار
مکین کون تھا اس میں، مکان کس کا ہے
جہاں تمہارے نشان قدم نہیں ملتے
مِرا نہیں ہے اگر وہ مکان کس کا ہے
کلی کلی لبِ گویا، شجر شجر خاموش
یہ داستان ہے کس کی بیان کس کا ہے
یہ کیوں صلیب و سلاسل بنائے جاتے ہیں
تمہارے پیش نظر امتحان کس کا ہے
نہ دشمنی کی علامت نہ دوستی کا شعور
تِرے پڑوس میں شاطر مکان کس کا ہے
شاطر حکیمی
No comments:
Post a Comment