پری شیشہ کے اندر آ پڑی ہے
مئے گلنار کی وقعت بڑی ہے
اٹھایا ساغر زریں تو سمجھے
پس دیوار معشوقہ کھڑی ہے
دیا جب کہ خراج حسن ہم نے
یہ چوٹی کس لیے پیچھے پڑی ہے
صف دنداں ہے دہن مشکبو میں
کہ سانچے موتیوں کی یہ لڑی ہے
گماں ہوتا ہے سنبل کی لچک پر
کسی دست نگاریں میں چھڑی ہے
بہ ربط خاص ہو تزئین خاطر
یہ حسن و عشق کی نازک کڑی ہے
ہوئی آسائش دنیا تو حاصل
مگر آگے قیامت کی گھڑی ہے
نہ چھوٹی دیدۂ عشاق سے کیوں
یہ برکھا ہے کہ آنسو کی جھڑی ہے
ہوا نخچیر آخر نذر طائر
نگہ کس اوج پہ نسرین لڑی ہے
صبیحہ نسرین
No comments:
Post a Comment